حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،دیوبند/ انجمن سعیدیہ کے ترجمان اور شیعہ جامع مسجد تھیتکی کے سابق امام جمعہ مولانا سید محمد سعید نقوی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایران کے صوبہ فارس کے شہر شیراز میں حرم شاہ چراغ میں جو دہشت گردانہ حملہ ہوا ہے ہم اس کی پُر زور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں جس میں دسیوں زائرین و خادمین حرم، شہید و زخمی ہوئے جن میں تین معصوم بچے بھی شامل تھے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم داعش کا گماشتہ حامد بدخشاں (۲۳سال) جو ایران کا رہنے والا نہیں ہے وہ باب الرضاؑ سے حرم میں داخل ہوا اور بلاسبب اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس سےحرم کی پُر امن فضا خونین منظر میں تبدیل ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے بے گناہوں کے خون سے حرم مقدس کی زمین سرخ ہوکر رہ گئی۔
بقول ایرانی صدر آقائے رئیسی زید عزہ کے یہ حملہ بظاہر ’’صفوف ملت میں نااتفاقی و انتشار پیدا کرنے اور ملک کی تیز رو پیشرفت پر قدغن لگانے کے لیے کیا گیا مگر مجرمین ذہن نشین کرلیں کہ وہ کسی صورت بخشے نہ جاسکیں گے‘‘۔
واقعا نہ اس حسینی غیور قوم کو بہکا پھسلا کر منتشر کیا جاسکتا ہے۔ نہ ان کے عزم و ہمت کو مضمحل کیا جاسکتا ہے۔ نہ وہاں کے استقلال کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔ نہ ان کی غیر وابستہ وغیر محکوم ترقی کی راہوں کو مسدود کیا جاسکتا ہے اور نہ وہاں پر موجود مزارات مقدسہ کو مٹایا جاسکتا ہے کیوں کہ بقول آقائے جوادی آملی حفظہ اللہ کے خداوند عالم (ہر زمانے میں) حرم امن اہل بیتؑ کی خانہ کعبہ کی طرح تکفیری ابرہوں سے حفاظت کرتا رہے گا۔
ہم اس جانکاہ صدمے اور دلخراش حادثے پرمنتقم خون شہدا حضرت ولی عصرؑ، مراجع تقلید اور رہبر معظم کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں ۔ جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔ رب کریم ان کو صبر و اجر کی دولت سے سرفراز کرے اور شہدائے حرم کو جوار شہدائے کربلا میں جگہ دے۔
یہ وہ دردناک حادثہ ہے جس کی تلافی کسی صورت ممکن نہیں سوائے اس کے کہ اس حملے کے پیچھے کارفرما اغراض و مقاصد کو سلسلہ وار تلاش کرکے ٹھوس اقدامات کیے جائیں تاکہ عالمی استکبار کو اس کی منصوبہ بند سازشوں کا منہ توڑ جواب دیا جاسکے جیسا کہ رہبر معظم دام ظلہ نے اپنے تعزیتی بیان میں تصریح کی ہے کہ’’۔۔۔اس افسوسناک جنایت کے مجرم یا مجرمین کو بالضرور سزا دی جائے گی، لیکن اپنوں کے داغ مفارقت اور حرم اہل بیت علیہم السلام کی بے حرمتی کی تلافی بس اس طرح سے ممکن ہے کہ ان حملوں کی اصل وجہ تلاش کی جائے اور ان کے بارے میں فیصلہ کن اور دانشمندانہ اقدامات کیے جائیں‘‘۔
ہم عالمی عدالتوں اور حقوق انسانی کی علمبردار تنظیموں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ مہر سکوت توڑتے ہوئے داعش جیسی تنظیموں کے ناپاک عزائم سے پردہ اٹھائے۔ ان کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرے اور ان کو عملی طور پر ممنوع قرار دے کیونکہ دہشت گردی اب ایک عالمگیر مسئلہ بنتی جارہی ہے جس سے پوری دنیائے انسانیت کی امنیت کو خطرہ ہے اور ہر کسی کی زندگی ضیق ہوئی جاتی ہے۔۔۔ مگر افسوس تو یہ ہے کہ جب راہبر ہی راہزنی پر اتر آئیں یا راہزن ہی راہبر بن بیٹھیں تو پھر کس سے انصاف کی امید کی جاسکتی ہے اور کس سے بے گناہوں کے خون کے انتقام کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ عالمی مسائل ہی نہیں بلکہ ملک کے داخلی معاملات میں بھی انسانیت نوازی کا مکھوٹا پہن کر ثالثی اور حکمیت کا شوق رکھنے والی مہا شکتیاں کیونکر اس داعش کے خلاف بول سکتی ہیں جن کے مسموم پستانوں سے چسکیاں لے لے کے نفرتوں کا زہر پی کر داعشیوں کا یہ ٹولہ جوان ہوا ہے۔ اور جب یہ سب چپ ہیں تو اس عالمی میڈیا کو سانپ سا سونگھ جانا قہری ہے جس کی حیثیت کسی زرخرید لونڈی سے زیادہ کی نہیں رہ گئی ہے۔ اس کی تو عادت ہی یہ ہے کہ وہ جرم پر نہیں سزا پر شور مچاتی ہے اور قتل کے بجائے قصاص پر روتی پیٹتی ہے۔
میـرا قــاتل ہی میـرا منـصـف ہے
کیا مرے حق میں فیصلہ دے گا
وہی قاتل وہی شاہد وہی منصف ٹھہرے
اقـربا میـرے کریں قتـل کا دعـویٰ کـس پر
تاہم دنیا کی ساری عدالتوں سے ہٹ کر بھی ایک عدالت ہے جو اوپر والے کی عدالت ہے۔ جہاں صرف مظلوم کی داد فریاد سنی جاتی ہے اور جس کے فیصلوں کو نہ ٹالا جاسکتا ہے نہ بدلا جاسکتا ہے اور نہ خریدا جاسکتا ہے۔ جب اس عدالت کا منصف مظلوموں کا انتقام لینے پر آتا ہے تو بڑے بڑے ہٹلروں کے لیے عرصہ حیات تنگ ہوکر رہ جاتا ہے۔ اور عنقریب ایسا ہی ہوگا۔
بظاہر داعش جیسی تنظیموں سے نبرد آزما حسینی قوم کے لیے یہ انتہائی صبر آزما اور مصائب و آلام والا دور ہے مگر اس قوم کے پاس دو چیزیں ایسی ہیں جو بے پناہ مشکل ترین حالات میں بھی اس قوم کو مایوس ہونے نہیں دیتیں۔ *ایک سلسلہ وار تجربہ شہادت کہ ہر دور میں ان کے قاتل قتل کرکے مرتے مٹتے چلے آئے مگر یہ شہادت پا پا کر ہمیشہ زندہ و جاوید رہے اور دوسرے سوز انتظار کہ کسی مسیحا کے آنے کا انتظار ان کے عزم و ارادے کی حرارت میں کمی نہیں آنے دیتا اور شمع امید زیست کو بجھنے نہیں دیتا۔* اور انشاء اللہ جب آنے والا آئے گا تو عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا۔ ظالمین اپنے ظلم کے ساتھ نیست و نابود ہوں گے اور مظلوموں کے لبوں پر مسکراہٹیں ہوں گی۔